بارش کے بوندوں کی ٹک ٹک کھڑکی کے شیشے پر بج رہی تھی۔ کمرے میں پیلے بلب کی مدھم روشنی پھیلی ہوئی تھی، اور انسپکٹر فہد اپنے دفتر میں اکیلا بیٹھا پرانی فائلوں کے ڈھیر کو الٹ پلٹ رہا تھا۔ وقت آدھی رات سے گزر چکا تھا، سڑکیں سنسان تھیں، اور شہر کے کنارے پولیس اسٹیشن میں صرف بارش اور گھڑی کی ٹِک ٹِک سنائی دے رہی تھی۔
اچانک ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔
فہد چونک کر سیدھا ہوا اور ریسیور اٹھایا۔ دوسری طرف سے ایک دبکی ہوئی، خوف زدہ سی آواز آئی:
“وہ واپس آ گیا ہے… وہ مجھے دیکھ رہا ہے۔”
فہد کا دل ایک لمحے کو رک سا گیا۔ “آپ کہاں ہیں؟” اس نے جلدی سے پوچھا۔
لیکن جواب کے بجائے لائن میں صرف تیز سانسوں کی آواز آئی… پھر ایک دھماکے کی سی کھڑکھڑاہٹ اور لائن کٹ گئی۔
یہ آواز اجنبی نہیں تھی۔
یہ سارہ تھی — وہی لڑکی جو تین سال پہلے ایک بدنام سیریل کلر کے کیس میں مرکزی گواہ بنی تھی۔ کیس ختم ہونے سے پہلے وہ غائب ہو گئی، اور سب نے سمجھا کہ وہ مر چکی ہے۔ لیکن آج… اس کی آواز دوبارہ سنائی دی۔
فہد نے جیکٹ پہنی، ریوالور سنبھالا، اور گاڑی اسٹارٹ کی۔
بارش کے بیچ خالی سڑکوں پر اس کی گاڑی ہوا کو چیرتی ہوئی دوڑ رہی تھی۔ فون کی آخری ٹریسنگ ایک پرانے فلیٹ پر ختم ہوئی تھی، جو برسوں سے خالی پڑا تھا۔
عمارت کے دروازے پر زنگ آلود تالا آدھا ٹوٹا ہوا تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی ایک عجیب سی بوسیدہ بدبو نے فہد کا استقبال کیا۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ہر قدم کے ساتھ لکڑی کی چرچراہٹ گونجتی تھی۔ اوپر پہنچ کر اس نے ایک کمرے کا دروازہ دھکیلا…
کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، صرف ایک کونے میں موم بتی جل رہی تھی۔ روشنی کے دائرے میں فرش پر ایک پرانا ٹیپ ریکارڈر پڑا تھا۔ فہد نے ریکارڈر چلایا، تو وہی آواز گونجی:
“وہ واپس آ گیا ہے… وہ مجھے دیکھ رہا ہے۔”
لیکن اس بار آخر میں ایک ہلکی سی ہنسی بھی تھی… مردانہ ہنسی۔
فہد کا سانس رک گیا۔ پیچھے سے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ وہ مڑا، مگر کمرے کا دروازہ خودبخود بند ہو چکا تھا۔ باہر سے کسی نے آہستہ سے کہا:
“انسپکٹر صاحب… آپ بھی اب اس کیس کا حصہ ہیں۔”
موم بتی بجھ گئی، اور کمرہ مکمل اندھیرے میں ڈوب گیا۔
بس ایک آخری آواز باقی تھی — وہی ہنسی، جو اب قریب آ رہی تھی…