عنوان: آئینہ جو سچ نہیں دکھاتا


عائشہ کو ہمیشہ سے پرانی چیزوں کا شوق تھا۔ اینٹیک مارکیٹ میں گھومنا، پرانی گھڑیوں، لکڑی کے فریموں اور عجیب و غریب آرٹ کے ٹکڑوں کو دیکھنا، یہ سب اس کی پسندیدہ مصروفیات تھیں۔ جب اسے پتا چلا کہ شہر کے کنارے ایک صدی پرانا مکان سستے داموں بک رہا ہے، تو اس کے دل میں جیسے بجلی سی کوند گئی۔

سب نے اسے منع کیا۔ دوستوں نے کہا کہ وہ مکان “اچھا شگون” نہیں رکھتا، کچھ نے تو یہ تک کہہ دیا کہ وہاں لوگ زیادہ دیر نہیں رہ پاتے۔ مگر عائشہ ہنس کر ٹال دیتی۔
“ایسی کہانیاں صرف فلموں میں ہوتی ہیں۔”

مکان کی پہلی جھلک
جب وہ پہلی بار اس مکان میں داخل ہوئی، ہوا میں ایک عجیب سی پرانی لکڑی کی خوشبو تھی۔ دیواروں پر دھول جمی ہوئی تھی، اور کھڑکیاں اتنی پرانی تھیں کہ ہلکی سی ہوا سے چرچرا اُٹھتی تھیں۔ لکڑی کا سیڑھی دار زینہ اوپر کی منزل تک جاتا تھا، مگر وہاں کا ایک کمرہ بند تھا۔ مالک مکان نے بس اتنا کہا:
“یہ کمرہ سالوں سے نہیں کھلا… اور بہتر ہے کہ بند ہی رہے۔”

عائشہ کو بات عجیب لگی، مگر اس نے زیادہ سوال نہیں کیے۔

آئینے سے پہلی ملاقات
صفائی کے دوران، اسٹور روم کے کونے میں ایک بڑا سا آئینہ ملا۔ اس کے اردگرد سنہری لکڑی کی باریک نقاشی تھی، اور کمال کی بات یہ کہ آئینے کا شیشہ ایک دم صاف تھا، جیسے کل ہی پالش کیا گیا ہو۔
“یہ تو کمرے کی جان بن جائے گا۔” عائشہ نے خوشی سے کہا، اور اسے اپنے بیڈروم میں لگا لیا۔

پہلی رات، وہ بستر پر لیٹی ہوئی تھی۔ کھڑکی سے ہلکی سی روشنی آ رہی تھی، جو آئینے پر پڑ رہی تھی۔ اچانک اس نے دیکھا کہ آئینے میں اس کا عکس ہلکی سی مسکراہٹ لیے کھڑا ہے، حالانکہ اس کے اپنے چہرے پر کوئی مسکراہٹ نہیں تھی۔

دل میں ایک لمحے کو خوف سا آیا، مگر اس نے خود کو سمجھایا، “شاید روشنی کا اثر ہے۔”

چابی والا عکس
اگلی صبح، جب وہ کپڑے پہننے لگی اور آئینے میں دیکھا، تو چونک گئی۔ اس کے عکس نے ہاتھ میں ایک پرانی پیتل کی چابی پکڑی ہوئی تھی — لیکن اس کے اپنے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں تھا۔
عکس نے آہستہ آہستہ وہ چابی ایک میز پر رکھی اور عائشہ کو سیدھا دیکھتے ہوئے بولا:

“یہ اوپر والے کمرے کی ہے۔”

عائشہ کا سانس رک گیا۔ اس نے آنکھیں مسلیں، لیکن اگلے ہی لمحے وہ منظر غائب تھا، اور آئینے میں بس اس کا عام سا عکس نظر آ رہا تھا۔

بند کمرہ
تجسس کے مارے وہ اوپر گئی۔ بند کمرے کے دروازے پر واقعی ایک چابی کا سوراخ تھا۔ اور حیرت کی بات یہ کہ دروازے کے پاس فرش پر ایک پرانی پیتل کی چابی رکھی تھی، بالکل ویسی جیسی عکس نے دکھائی تھی۔

دل زور زور سے دھڑک رہا تھا، مگر تجسس زیادہ طاقتور نکلا۔ اس نے چابی تالے میں ڈالی اور دروازہ چرچراتے ہوئے کھل گیا۔

کمرے کے اندر
اندر ایک دھندلا سا کمرہ تھا، کھڑکیوں پر بھاری پردے پڑے تھے۔ ایک کونے میں ایک کرسی رکھی تھی، اور اس پر کوئی بیٹھا تھا۔
عائشہ کے قدم جیسے زمین میں جم گئے — وہ شخص بالکل اس جیسا تھا، چہرہ، لباس، ہر چیز ایک جیسی۔

وہ “دوسری عائشہ” آہستہ سے اٹھ کر آگے بڑھی اور ایک سرد لہجے میں بولی:

“میں وہ ہوں… جو تم بننے والی ہو۔”

عائشہ نے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی، مگر پیچھے دروازہ بند ہو چکا تھا۔ اس کی آنکھیں آئینے پر پڑیں جو کمرے کی دیوار پر لٹکا تھا۔ اس میں اس کا عکس نہیں، بلکہ وہ “دوسری عائشہ” مسکرا رہی تھی — اور اس کے پیچھے اصل عائشہ کھڑی تھی، جیسے قید ہو۔

اگلی صبح، مکان کے بیڈروم میں لگے آئینے میں ایک عورت نظر آ رہی تھی… وہ مسکرا رہی تھی، اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کون سی عائشہ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *