عنوان: آخری تصویر


رات کا ساڑھے بارہ بج رہا تھا۔ لاہور کی بارش نے ساری گلیوں کو چمکا دیا تھا، لیکن یہ روشنی خوشی کی نہیں، تنہائی کی تھی۔ سنسان سڑک پر بس ایک ہی آواز گونج رہی تھی — علی کی موٹر سائیکل کی۔ ٹائر پانی کے چھینٹوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے، اور بارش کے بوندے اس کے ہیلمٹ پر بج رہی تھیں، جیسے کوئی مسلسل دستک دے رہا ہو۔

علی ایک فوٹوگرافر تھا۔ اس کی زندگی روشنی اور رنگوں کے گرد گھومتی تھی، مگر آج اس کا کام روشنی کے لیے نہیں، اندھیرے کے لیے تھا۔ کل شام اسے ایک عجیب سا پیغام ملا —

“ہمیں ایک پرانی حویلی کی تصویر چاہیے… صرف آدھی رات کو۔ اور بس ایک تصویر… گیٹ کے اندر سے۔”

پہلے تو علی نے ہنس کر اسے مذاق سمجھا، لیکن پھر اگلا پیغام آیا — رقم اتنی زیادہ کہ ایک مہینے کی کمائی برابر۔ لالچ نے ڈر پر غالب آ کر فیصلہ کروا دیا۔

اب وہ اس حویلی کے سامنے کھڑا تھا۔ گیٹ پر زنگ کی تہہ، اس پر چڑھی ہوئی جنگلی بیلیں، اور چاروں طرف خاموشی… صرف دور کہیں ایک اُلو کی آواز گونج رہی تھی۔ ہوا میں مٹی اور پرانے لکڑی کے سڑنے کی ملی جلی بو تھی۔

علی نے گیٹ کو ہلایا۔ چرچراہٹ کی آواز نکلی، جیسے برسوں سے اسے نہ کھولا گیا ہو۔ گیٹ ہلکا سا کھلا اور اندر سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا — عجیب سی ٹھنڈک، جیسے دھوپ یہاں کبھی پہنچی ہی نہ ہو۔

قدم قدم چلتا وہ صحن میں پہنچا۔ بارش کے پانی سے بھیگی مٹی پر اس کے جوتوں کی چاپ گونج رہی تھی۔ دائیں طرف ایک پرانا جھولا ہل رہا تھا، حالانکہ ہوا بالکل بند تھی۔ اوپر کھڑکی کے پردے آہستہ آہستہ ہل رہے تھے۔

علی نے کیمرہ سنبھالا، فلیش آن کیا، اور پہلی تصویر لی۔ لمحے بھر کا فلیش صحن کو روشن کر گیا — ٹوٹے ستون، بوسیدہ دروازہ… اور ایک سایہ، جو اوپر کھڑکی میں کھڑا تھا۔ وہ عورت تھی، لمبے بال، سفید کپڑوں میں، چہرہ صاف نہیں دکھا، لیکن آنکھیں… جیسے سیدھی اس کے اندر جھانک رہی ہوں۔

دل کی دھڑکن تیز ہوئی۔ “شاید روشنی کا دھوکہ ہے”، اس نے خود کو تسلی دی۔ وہ دروازے کی طرف بڑھا، اور ایک اور تصویر لی — اس بار واضح طور پر، لیکن جب تصویر کی اسکرین دیکھی تو اس میں کچھ عجیب تھا۔ دھندلا سا چہرہ، بالکل اس کے پیچھے۔

اس کا سانس رک سا گیا۔ خوف نے لالچ کو مات دینا شروع کر دی۔ وہ فوراً گیٹ کی طرف دوڑا، بارش تیز ہو گئی تھی، مگر عجب بات یہ تھی کہ گیٹ خود بخود بند ہو چکا تھا۔ اس نے زور لگایا اور باہر نکل آیا۔

موٹر سائیکل اسٹارٹ کرنے ہی والا تھا کہ فون بجا — وہی نمبر، وہی ٹھنڈی سی آواز:

“شکریہ، تصویر ہمیں مل گئی ہے… لیکن تم نے دو تصویر لی تھیں نا؟”

علی کا ہاتھ رک گیا۔ اس نے کیمرہ کھولا — صرف ایک تصویر موجود تھی، وہ بھی دوسری والی۔ اس تصویر میں وہ خود گیٹ کے اندر کھڑا تھا، لیکن اس کے کندھے پر ایک سفید ہاتھ رکھا تھا… ہاتھ کے ناخن لمبے، کالے، اور تیز دھار۔

بارش رک گئی تھی۔ علی نے بے اختیار پیچھے مڑ کر دیکھا — گیٹ بند تھا، مگر اوپر کھڑکی میں وہی عورت کھڑی مسکرا رہی تھی۔ اس کے ہونٹ ہل رہے تھے… جیسے وہ کہہ رہی ہو:

“تیسری تصویر… ابھی باقی ہے۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *