رات کے ساڑھے گیارہ بجے کا وقت تھا۔ بارش تھم چکی تھی مگر ہوا میں ٹھنڈ اور نمی ایسی تھی کہ کھڑکی کا شیشہ چھوئیں تو پانی کے قطرے محسوس ہوں۔ عمران شہر سے واپس گاؤں کی طرف جا رہا تھا۔ سڑک بالکل سنسان، چاروں طرف اندھیرا اور صرف گاڑی کی ہیڈلائٹس کا پیلا ہالہ سامنے کے کچے راستے کو روشن کر رہا تھا۔
گاڑی کے اندر خاموشی تھی، بس وائیپر کی ہلکی سی آواز اور کبھی کبھار دور کہیں مینڈک کے بولنے کی۔ عمران کے ذہن میں گھر پہنچ کر گرم چائے پینے کا خیال تھا کہ اچانک، دائیں طرف کے بس اسٹاپ پر ایک سایہ نظر آیا۔
وہ ایک نوجوان لڑکی تھی، اکیلی کھڑی۔ ہاتھ میں سیاہ رنگ کی چھتری، سفید شال اوڑھے، اور نظریں نیچے۔ اس کے پاس کوئی بیگ یا سامان نہیں تھا۔ عمران نے آہستہ سے گاڑی روکی۔
شیشہ نیچے کرتے ہوئے پوچھا،
“آپ کہاں جانا چاہتی ہیں؟ اس وقت یہاں اکیلی؟”
لڑکی نے سر اٹھایا۔ چہرہ زرد سا، ہونٹ ہلکے نیلے، مگر آنکھوں میں عجیب سی گہرائی۔ وہ آہستہ سے بولی،
“مین روڈ سے آگے… قبرستان کے پاس والی بستی تک۔”
عمران نے لمحے بھر سوچا، پھر دروازہ کھول دیا۔
“آ جائیے۔”
وہ بنا کچھ کہے آ کر پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ گاڑی چل پڑی۔ عمران نے دیکھا کہ وہ مسلسل کھڑکی سے باہر اندھیرے میں دیکھ رہی تھی، جیسے کسی کو ڈھونڈ رہی ہو۔
چند منٹ گزرے، عمران نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا،
“آپ کا گھر دور ہے؟”
“زیادہ نہیں…” اس نے دھیرے سے کہا، پھر دوبارہ چپ ہو گئی۔
راستہ لمبا اور خاموش تھا۔ درمیان میں ایک مقام پر، سڑک کے کنارے پرانے درختوں کی قطار آ گئی، جن کے نیچے اندھیرا اور گہرا لگ رہا تھا۔ جیسے ہی ہیڈلائٹس ان درختوں کے نیچے آئیں، عمران کو محسوس ہوا کہ لڑکی کا عکس شیشے میں ہلکا سا دھندلا گیا — جیسے وہ وہاں موجود ہی نہ ہو۔
وہ جھٹکے سے مرر دیکھنے لگا، لیکن اگلے ہی لمحے وہ صاف نظر آنے لگی۔ عمران نے خود کو سمجھایا کہ شاید یہ روشنی کا کھیل ہو۔
پانچ منٹ بعد، قبرستان کی دیواریں دور سے دکھائی دینے لگیں۔ لڑکی نے پہلی بار ذرا لمبا جملہ کہا:
“یہیں روک دیجیے… اور شکریہ۔”
عمران نے گاڑی سڑک کنارے روکی۔ وہ آہستہ سے اتری، اور اندھیرے کی طرف چلنے لگی۔
گاڑی موڑنے سے پہلے عمران نے ریئر ویو مرر میں دیکھا — لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔
وہ چونک کر گاڑی سے باہر نکلا، چاروں طرف نظر دوڑائی۔ خالی میدان، ہلکی ہوا، اور دور سے قبرستان کے پتے سرسرا رہے تھے۔
پھر اس کی نظر قریب کی ایک قبر پر پڑی۔ قبر پر ایک صاف تصویر لگی تھی۔ تصویر میں وہی لڑکی مسکرا رہی تھی۔ نیچے تاریخِ وفات لکھی تھی — “13 اگست 2003”
عمران کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ پیچھے سے بارش کی ٹھنڈی بوند گری، اور اس کے کان کے قریب ایک سرگوشی گونجی:
“شکریہ… آپ نے آخری بار گھر پہنچا دیا۔”
اچانک گاڑی کا ہارن خود بخود بجا۔ عمران نے پلٹ کر دیکھا — پچھلی سیٹ بالکل خالی تھی، مگر ہلکی سی نمی کے نشان تھے، جیسے کوئی ابھی ابھی وہاں بیٹھا ہو۔