بارش مسلسل کھڑکیوں پر برس رہی تھی۔ کمرے میں ہلکی ہلکی روشنی صرف ایک ٹیبل لیمپ سے آ رہی تھی۔
عمیر تنہا اپنے دادا کے پرانے گھر میں رات گزار رہا تھا۔ کونے میں رکھا ایک بوسیدہ لکڑی کا الماری نما شیلف اس کی نظر کو بار بار اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔
اس شیلف کے اوپر ایک پرانا سا ریڈیو رکھا تھا — وہی گھومانے والے ڈائل والا، دھندلا سا گلاس، اور لکڑی پر جگہ جگہ خراشیں۔
عمیر نے سوچا، “چلو دیکھتے ہیں، چلتا بھی ہے یا نہیں۔”
اس نے ریڈیو کا بٹن گھمایا — کڑک کڑک… شور… اور پھر ایک مدھم سی موسیقی سنائی دی، جیسے کسی پرانی شادی کی ریکارڈنگ ہو۔
بارش کے شور میں وہ دھیمی سی دھن عجیب حد تک سنائی دے رہی تھی۔
اچانک موسیقی رُک گئی۔
ریڈیو سے ایک بھاری سی، گھمبیر آواز نکلی:
“عمیر… تم سن رہے ہو؟”
اس کے ہاتھ سے ڈائل گھوم گیا۔ وہ چونکا: “یہ کوئی پرانی ریکارڈنگ ہوگی؟”
مگر پھر آواز دوبارہ آئی:
“یہ ریکارڈنگ نہیں… میں تم سے بات کر رہا ہوں۔”
عمیر نے جلدی سے ریڈیو بند کر دیا۔ کمرے میں مکمل خاموشی چھا گئی۔
وہ گھبرا کر لیمپ کے قریب بیٹھ گیا۔ مگر دس سیکنڈ بھی نہیں گزرے تھے کہ ریڈیو خود بخود آن ہو گیا — بغیر کسی بجلی کے سوئچ کے آن ہونا ممکن ہی نہیں تھا۔
اب آواز مدھم نہیں بلکہ صاف تھی:
“تم یہاں اکیلے نہیں ہو۔ اس کمرے میں ایک اور شخص ہے… اور وہ تمہارے پیچھے کھڑا ہے۔”
عمیر کا دل زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ آہستہ آہستہ پلٹ کر دیکھنے ہی والا تھا کہ لیمپ بجھ گیا، کمرے میں مکمل اندھیرا۔
بارش کی آواز رک گئی… اور کسی کے سانس لینے کی تیز آواز اس کے بالکل قریب سے آنے لگی۔
اس نے ہمت کر کے ٹیبل لیمپ جلایا — کمرہ خالی تھا۔ مگر ریڈیو کی سوئی اب خود بخود گھوم رہی تھی۔
اس پر ایک نیا جملہ آیا:
“تم بچ نکلے… فی الحال۔”
اچانک کھڑکی زور سے بند ہوئی، اور عمیر نے دیکھا — ریڈیو کی لکڑی پر اب ایک تازہ خراش ابھری ہوئی تھی، جس پر لکھا تھا: “کل رات پھر ملیں گے”۔