بارش کا موسم تھا، اور شہر کے مضافات میں ایک پرانا کرائے کا مکان کئی سال سے خالی پڑا تھا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ اس مکان کی اوپری منزل کی کھڑکی کبھی روشنی نہیں دیتی، چاہے دن ہو یا رات — اسی لیے اسے “اندھی کھڑکی” کہا جاتا تھا۔
عائشہ، جو ایک فری لانس فوٹوگرافر تھی، پراسرار عمارتوں اور سنسان جگہوں کی تصویریں بنانے کا شوق رکھتی تھی۔ ایک دن اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس مکان کی تصاویر کھینچے گی تاکہ اپنے بلاگ پر ڈال سکے۔
وہ شام کا وقت تھا، بادل چھائے ہوئے تھے۔ عائشہ نے اپنا کیمرہ بیگ سنبھالا اور مکان کی طرف روانہ ہوئی۔ مکان کے گیٹ پر زنگ آلود تالا نہیں تھا، بس ایک چرچراتا ہوا لکڑی کا دروازہ، جو دھکا دینے پر خود بخود کھل گیا۔ اندر داخل ہوتے ہی نمی اور باسی لکڑی کی بو نے ناک کو چبھنے والی سنسناہٹ دی۔
کمرے خالی تھے، دیواروں پر پرانے کیل، فرش پر دھول کی موٹی تہہ۔ لیکن عائشہ کی نظر سیدھی اوپر والی سیڑھی کی طرف گئی۔ وہاں ایک لمبا سا ہال تھا، جس کے آخر میں وہی “اندھی کھڑکی” تھی۔
جب وہ سیڑھیاں چڑھ رہی تھی، ہر قدم کے ساتھ فرش زور سے چرچراتا تھا، جیسے کسی کو اس کی آمد کی خبر ہو رہی ہو۔ ہال میں پہنچ کر اس نے دیکھا کہ کھڑکی بند تھی، اس پر موٹی مٹی جمی ہوئی تھی۔ لیکن… اندر سے کسی نے کھڑکی کے پردے کو ہلایا تھا۔
عائشہ کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھی، کیمرہ تیار رکھا۔ جیسے ہی اس نے پردہ ہٹانے کے لیے ہاتھ بڑھایا، اندر سے سرد ہوا کا ایک جھونکا نکلا، حالانکہ کھڑکی باہر سے بند تھی۔
اچانک، اس کے کیمرے کی اسکرین پر ایک تصویر نمودار ہوئی — ایک دھندلا چہرہ، بالکل اسی جگہ کھڑا جہاں وہ ابھی تھی۔ عائشہ نے فوراً کیمرہ نیچے کیا، مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔
پھر، کھڑکی کے شیشے میں اس نے اپنا عکس دیکھا — لیکن وہ عکس مسکرا رہا تھا، جبکہ عائشہ خود خوف سے سانس روک چکی تھی۔
عکس نے ہونٹ ہلائے:
“تم نے مجھے دیکھ لیا… اب تم بھی یہاں رہو گی۔”
پچھلے کمرے کا دروازہ خود بخود بند ہو گیا۔ کیمرہ اس کے ہاتھ سے گرا اور لینز میں آخری بار وہی کھڑکی قید ہو گئی — اس بار کھڑکی کے پیچھے عائشہ کھڑی تھی، مسکراتی ہوئی۔