عنوان: بارش کی آخری کال

بارش مسلسل کھڑکیوں پر برس رہی تھی، اور علی تنہا اپنے فلیٹ میں بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ بجلی کئی بار جا چکی تھی، مگر موبائل میں چارچ سب سے زیادہ قیمتی چیز تھی۔

رات کے ساڑھے گیارہ بجے، فون بجا۔ اسکرین پر کوئی نمبر نہیں تھا — صرف “Unknown Caller” لکھا تھا۔
علی نے ہچکچاتے ہوئے فون اٹھایا۔

“علی… باہر مت آنا… وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔”

یہ الفاظ اتنے آہستہ، اتنے بھاری تھے کہ علی کے ہاتھ کانپنے لگے۔ اس نے فوراً پوچھا: “کون؟ تم کون ہو؟”
لیکن دوسری طرف صرف بارش کی بوندوں اور دور کہیں بجلی کے کڑکنے کی آواز آئی… پھر کال کاٹ دی گئی۔

علی کھڑکی کے پاس گیا۔ گلی سنسان تھی، بس اسٹریٹ لائٹ کی پیلی روشنی اور بارش کی رم جھم۔ لیکن ایک کونے میں، چھتری کے نیچے کوئی کھڑا تھا۔ علی نے آنکھیں سکیڑ کر دیکھا، مگر وہ شخص جیسے اسے گھور رہا تھا۔

پندرہ منٹ بعد، پھر فون بجا۔

“میں نے کہا تھا باہر مت آنا… اب وہ تمہارے دروازے تک آ گیا ہے۔”

علی کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ وہ آہستہ آہستہ دروازے کے قریب گیا۔ سننے کی کوشش کی۔ ہلکی ہلکی قدموں کی چاپ سنائی دی۔ اور پھر… دستک۔
ٹک… ٹک… ٹک…

دل کی دھڑکن تیز، پسینہ ماتھے پر۔ علی نے ہمت کر کے دروازے کی جھری سے جھانکا — باہر وہی شخص کھڑا تھا، لیکن اس کا چہرہ بالکل سیاہ، جیسے کوئی ماسک ہو یا سایہ۔

فون تیسری بار بجا۔

“وقت ختم… اگر تم نے دروازہ کھولا تو واپس نہیں جا پاؤ گے۔”

علی نے سوچا یہ کوئی مذاق ہے، مگر اندر کا خوف حقیقت کو جھٹلا نہیں رہا تھا۔ اچانک بجلی چلی گئی، اور پورا فلیٹ اندھیرے میں ڈوب گیا۔ دستک رک گئی… مگر اگلے لمحے، ایک بھیگی ہوئی پرچی دروازے کے نیچے سے اندر سرکائی گئی۔

علی نے کانپتے ہاتھوں سے پرچی اٹھائی۔ اس پر لکھا تھا:

“تم نے مجھے دو سال پہلے بارش میں مرنے دیا… آج میں تمہیں لینے آیا ہوں۔”

وہ پیچھے ہٹا، مگر فون پھر بجا۔
اس بار اسکرین پر ایک ہی لفظ لکھا تھا —
“Goodbye”

دروازہ آہستہ آہستہ خود بخود کھلنے لگا، اور باہر… صرف بارش کی بو، لیکن کوئی نہیں تھا۔
پیچھے مڑ کر علی نے دیکھا — اس کا فون فرش پر پڑا تھا، اسکرین پر پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے… جیسے کسی نے اسے ابھی ابھی باہر سے اٹھا کر رکھا ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *