کریم ایک پراپرٹی ڈیلر تھا، لیکن پرانی، ویران عمارتوں کی خریدو فروخت سے ہمیشہ کتراتا تھا۔ ایک دن ایک بوڑھا شخص اس کے دفتر آیا اور کہا:
“میرے پاس ایک حویلی ہے… بہت سستی… لیکن شرط یہ ہے کہ تم اندر کا تیسرا کمرہ کبھی نہیں کھولو گے۔”
کریم نے ہنس کر کہا، “پرانے مکانوں کی کہانیاں سنی سنائی باتیں ہوتی ہیں۔” وہ سودا کر کے اسی دن حویلی دیکھنے پہنچ گیا۔
حویلی باہر سے بہت شاندار مگر سنسان تھی۔ درختوں کی جڑیں دیواروں میں پیوست ہو چکی تھیں، اور گیٹ پر لگی زنجیر خود بخود ہل رہی تھی، جیسے ہوا میں کوئی سرگوشی ہو۔ اندر داخل ہوتے ہی عجیب سی ٹھنڈک اس کے بدن میں سرایت کر گئی۔
گراؤنڈ فلور پر دو بڑے کمرے تھے — ایک ڈرائنگ روم اور ایک ڈائننگ ہال۔ لیکن سیڑھیوں کے پاس ایک دروازہ تھا، جس پر زنگ آلود تالہ لگا تھا۔ یہی وہ “تیسرا کمرہ” تھا۔
پہلے دن تو کریم نے کمرے کو نظر انداز کر دیا، مگر رات کو جب وہ حویلی میں تنہا بیٹھا کاغذات دیکھ رہا تھا، اس تالے سے ہلکی ہلکی آواز آئی… جیسے کوئی اندر سے آہستہ آہستہ دستک دے رہا ہو۔
اگلے دن تجسس نے اسے بے چین کر دیا۔ اس نے تالہ توڑنے کا فیصلہ کیا۔ جیسے ہی دروازہ کھلا، ایک تیز سرد ہوا کا جھونکا آیا اور لائٹس جھپک کر بجھ گئیں۔ کمرہ خالی تھا… صرف بیچ میں ایک پرانی جھولتی کرسی پڑی تھی، جو خود بخود ہل رہی تھی۔
کریم نے ٹارچ جلائی اور کونے میں نظر ڈالی — وہاں ایک بڑا سا آئینہ تھا، دھول سے بھرا ہوا۔ جب اس نے ہاتھ سے دھول صاف کی، تو اس میں اپنا عکس دیکھا… مگر عکس کی آنکھیں بالکل سیاہ تھیں، اور وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہہ رہا تھا:
“بہت دن لگا دیے، کریم… اب تم بھی یہاں ہو۔”
کریم پیچھے ہٹا، لیکن پیچھے ہٹنے کی بجائے وہ خود کو آئینے کے اندر پاتا ہے۔ باہر جھولتی کرسی پر کوئی اور بیٹھا تھا… بالکل اس کی شکل کا، مگر وہ کریم نہیں تھا۔
دروازہ آہستہ آہستہ بند ہو گیا، اور باہر والے “کریم” نے تالہ دوبارہ لگا دیا۔
اس دن کے بعد، حویلی فروخت کے لیے کبھی لسٹ نہیں ہوئی — کیونکہ وہاں اب دو کریم تھے… ایک باہر، ایک اندر، اور دونوں صرف رات کو جگہ بدلتے تھے۔