عنوان: خاموش راہگیروں کا شہر

رات کے ایک بج کر پچاس منٹ تھے۔
شہر کی سنسان گلیوں میں صرف بارش کی بوندیں اور دور کہیں ایک کتے کی بھونک سنائی دے رہی تھی۔
علی، ایک نوجوان بلاگر، اپنی اگلی investigative story کے لیے شہر کے پرانے اور abandoned علاقوں کی تصویریں لے رہا تھا۔
وہ ایک چھوٹی گلی میں داخل ہوا، جو کبھی آباد تھی لیکن اب خالی اور سناٹا سا محسوس ہو رہا تھا۔

ہر قدم کے ساتھ فرش سے عجیب سی سرسراہٹ آ رہی تھی، اور دور سے مدھم سرگوشیاں سنائی دے رہی تھیں۔
گلی کے کنارے پر ایک پرانا بلب جھپک رہا تھا، اور روشنی میں سایے عجیب حرکات کر رہے تھے۔
علی نے کیمرہ نکالا اور آگے بڑھا، مگر اچانک محسوس کیا کہ گلی میں کوئی نہیں، لیکن ہوا میں قدموں کی آوازیں گونج رہی ہیں۔

اچانک ایک دروازے کے پیچھے سے کسی نے کہا:

“تم یہاں کیوں آئے ہو؟”

علی نے پیچھے مڑ کر دیکھا، مگر کوئی نہیں تھا۔
تبھی گلی کے کنارے موجود ایک سنسان عمارت کی کھڑکی سے مدھم روشنی آ رہی تھی، اور اندر سے چھوٹے چھوٹے سایے حرکت کر رہے تھے۔
علی نے ہمت کرکے عمارت میں قدم رکھا۔

اندر کمرہ خالی تھا، لیکن فرش پر چھوٹے چھوٹے خون کے نشان اور بکھرے ہوئے کاغذات تھے۔
ایک کاغذ پر لکھا تھا:

“جو اس گلی میں آتا ہے، وہ کبھی واپس نہیں جاتا…”

علی نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی، مگر وہ زور سے بند ہو گیا۔
سایے اس کے ارد گرد جمع ہو گئے، اور ایک مدھم، لرزتی ہوئی آواز نے کہا:

“اب تم بھی ہمارے درمیان ہو…”

علی نے دوڑ لگا کر دروازہ کھولا اور باہر نکلا، لیکن جب اس نے مڑ کر دیکھا، تو گلی خالی، سنسان، اور مکمل طور پر مختلف نظر آ رہی تھی۔
صرف بارش کی آواز اور دور کہیں خاموش راہگیر موجود تھے، جو اسے دیکھ رہے تھے، اور علی جان گیا کہ اب وہ ہمیشہ کے لیے اس شہر کا حصہ بن چکا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *