عنوان: رات کا آخری اسٹیشن

رات کے ایک بج کر پچپن منٹ ہو رہے تھے۔
شہر کے آخر میں ایک سنسان ریلوے اسٹیشن پر صرف بارش کی ٹپ ٹپ اور دور کہیں گھنٹی کی دھندلی آواز سنائی دے رہی تھی۔
حسن، ایک نوجوان فوٹوگرافر، اپنے دوستوں کے ساتھ رات کی تصویریں لینے کے لیے یہاں آیا تھا۔
وہ اسٹیشن پر اکیلا کھڑا ایک پرانی بینچ پر بیٹھا، کیمرہ ہاتھ میں پکڑے، اور آہستہ آہستہ ماحول کو فریم میں قید کر رہا تھا۔

اچانک، اسٹیشن کی لائٹ مدھم ہو گئی، اور دور سے ایک خالی اور زنگ آلود ٹرین کی آواز آئی۔
ٹرین قریب آئی، دروازے کھلے، لیکن اندر صرف خالی سیٹیں تھیں — کوئی مسافر نہیں۔
حسن کی دلچسپی بڑھ گئی اور اس نے اندر قدم رکھا۔

جیسے ہی ٹرین چل پڑی، باہر کا منظر بدلنے لگا۔ وہی سڑکیں، وہی روشنی کے دھبے، مگر کچھ عجیب تھا — ہر اسٹیشن پر نمبر نہیں بلکہ الفاظ لکھے تھے:
“یہاں مت اترنا…”
“آگے خطرہ ہے…”

حسن نے پہلی بار خوف محسوس کیا، لیکن کیمرہ بند کرنے کی بجائے آگے بڑھتا گیا۔
اچانک ایک پرانا ساعت ریلوے کنٹرول روم کا دکھائی دیا، جہاں ایک پرانا آدمی بیٹھا تھا، آنکھیں بند اور سانسیں بھاری۔
اس نے آہستہ سے کہا:

“یہ اسٹیشن زندہ نہیں… جو بھی اترتا ہے، واپس نہیں آتا۔”

ٹرین ایک جھٹکے سے رکی۔ حسن نے جلدی سے دروازہ کھولا اور نیچے قدم رکھا، مگر زمین خالی تھی — نہ ریل، نہ پلیٹ فارم، نہ کوئی شور۔
صرف ایک خالی ہوا، اور دور سے ٹرین کی چیخ جیسی آواز۔

پیچھے مڑ کر دیکھا تو ٹرین اسٹیشن پر موجود تھی، لیکن اندر کوئی نہیں، اور جو آدمی حسن کو ڈراتا تھا وہ بھی غائب ہو چکا تھا۔
حسن نے دوڑ لگائی، اور جب وہ اسٹیشن کی حدود سے باہر آیا، تو دیکھا کہ اسٹیشن اور ریل پٹری دونوں غائب ہو چکے ہیں — جیسے کبھی وجود میں ہی نہ تھے۔

اس رات حسن نے فیصلہ کیا کہ کوئی بھی آخری اسٹیشن کی ٹرین نہیں پکڑے گا، کیونکہ جو ایک بار اس میں بیٹھتا ہے، وہ ہمیشہ کے لیے… غائب ہو جاتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *