عنوان: رات کے اندھیرے میں قدم

رات کے ایک بج کر پچیس منٹ تھے۔
بارش کی ہلکی بوندیں کھڑکی سے ٹکرا رہی تھیں اور شہر کی سنسان گلیوں میں صرف ہوا کی سرسراہٹ سنائی دے رہی تھی۔
ماہ نور، ایک نوجوان محقق، اپنے نئے بلاگ کے لیے شہر کی پرانی، abandoned عمارتوں کا دورہ کر رہی تھی۔
جب وہ پہلی منزل پر پہنچی، تو ایک عجیب سا سکون اور باسی خوشبو نے اسے گھیر لیا، جیسے عمارت سالوں سے کسی زندہ شخص سے محروم تھی۔

ہر قدم کے ساتھ لکڑی کا فرش چرچراہٹ کرنے لگا، اور ماہ نور نے محسوس کیا کہ کوئی اسے آہستہ آہستہ دیکھ رہا ہے۔
ایک دروازہ جو اکثر بند رہتا تھا، خود بخود کھل گیا۔
وہ اندر گئی اور دیکھا کہ کمرے میں کوئی نہیں، لیکن فرش پر ایک چھوٹا سا خاکی پاؤں کا نشان تھا جو اچانک ختم ہو گیا۔

اچانک دیوار کے کنارے سے ایک مدھم سرگوشی سنائی دی:

“تم نے یہاں کیوں قدم رکھا؟”

ماہ نور نے پیچھے مڑ کر دیکھا، مگر کمرہ خالی تھا۔
تبھی کونے میں رکھی پرانی الماری آہستہ آہستہ کھلنے لگی، اور اندر سے ایک چھوٹا سا، پرانا ڈائری کا پیج کھل کر ہوا میں جھلکنے لگا۔
اس پر لکھا تھا:

“جو ایک بار یہاں قدم رکھتا ہے، وہ کبھی واپس نہیں آتا…”

ماہ نور نے ڈائری اٹھائی، اور جیسے ہی اس نے پڑھنا شروع کیا، کمرے میں سرد ہوا دوڑ گئی۔
ایک مدھم روشنی نے الماری کے اندر موجود عکس کو روشن کیا — ایک لڑکی، جس کی آنکھیں اندھیرے میں سرخ روشن ہو رہی تھیں۔
ماہ نور نے قدم پیچھے لیا، مگر دروازہ زور سے بند ہو گیا اور کمرے کی دیواریں آہستہ آہستہ بند ہوتے محسوس ہوئیں۔

چھوٹے چھوٹے سانسوں کی آوازیں کمرے میں گونجنے لگیں، اور ڈائری کے صفحات خود بخود پلٹنے لگے۔
ہر صفحے پر ماہ نور کا نام لکھا ہوا تھا، اور نیچے چھوٹے حروف میں ایک آخری جملہ:

“اب تم بھی اس اندھیرے کا حصہ ہو…”

ماہ نور نے دروازہ زور سے کھولنے کی کوشش کی، اور بالآخر باہر نکلی۔
جب اس نے مڑ کر دیکھا، تو عمارت اور اس کے نشان غائب ہو چکے تھے۔
صرف سنسان گلی، بارش اور سرد ہوا باقی تھی، اور ماہ نور جان گئی کہ اب وہ کبھی بھی مکمل طور پر آزاد نہیں ہوگی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *