رات کے ایک بجے کا وقت تھا۔ لاہور کا پرانا ریلوے اسٹیشن، جو کبھی دن میں ہزاروں مسافروں کی چہل پہل سے گونجتا تھا، اب مکمل سنسان تھا۔ بس ایک ٹوٹا ہوا بلب پلیٹ فارم نمبر 7 پر ٹمٹما رہا تھا، جیسے آخری سانسیں لے رہا ہو۔
علی، ایک نوجوان فوٹوگرافر، ہاتھ میں کیمرہ اور بیگ لٹکائے اسٹیشن پر پہنچا۔ وہ ایک فری لانس جرنلسٹ بھی تھا اور اکثر پرانی جگہوں کی تصویریں کھینچ کر ان پر اسٹوریز لکھتا۔ اس نے اپنے دوست سے ایک عجیب قصہ سنا تھا:
“پلیٹ فارم نمبر 7 پر آدھی رات کے بعد ایک ایسی ٹرین آتی ہے جو کہیں نہیں جاتی… یا شاید، کہیں اور لے جاتی ہے۔”
یہی جستجو علی کو اس سنسان رات میں یہاں کھینچ لائی تھی۔ ٹھنڈی ہوا زنگ آلود پٹریوں سے ٹکرا کر عجیب سی باس پیدا کر رہی تھی۔ دور کسی لوہے کے گیٹ کے ہلنے کی چرچراہٹ گونجتی، پھر اچانک خاموشی چھا جاتی۔
علی نے اپنا ٹرائی پوڈ کھڑا کیا، کیمرہ سیٹ کیا، اور پہلی فوٹو لی۔ ہر شٹر کلک کے ساتھ اس کا دل تیز دھڑک رہا تھا۔ وہ اپنے دل کو سمجھا رہا تھا کہ یہ صرف ایک خالی پلیٹ فارم ہے، کچھ نہیں ہوگا۔
لیکن پھر… دھند کے پار سے ایک ہلکی سی سیٹی کی آواز آئی۔ علی کے قدم رک گئے۔ اس نے گھڑی دیکھی — ایک بج کر تئیس منٹ۔ اس وقت کوئی ٹرین شیڈول پر نہیں تھی۔ آواز قریب آتی گئی، اور دھند کی دیوار کے پیچھے سے ایک پرانی بھاپ والی ٹرین نمودار ہوئی۔
اس کا رنگ سیاہ تھا، پہیوں پر زنگ جمی ہوئی، اور بھاپ ایسے نکل رہی تھی جیسے کسی نے اس کی سانسوں پر بوجھ ڈال رکھا ہو۔ لیکن سب سے عجیب بات یہ تھی کہ اس میں کوئی مسافر نہیں تھا — بس کھڑکیوں کے پیچھے دھندلے سائے ہل رہے تھے۔
ٹرین آہستہ آہستہ رک گئی۔ ایک دروازہ چرچرا کر خود بخود کھلا، اور اندر سے ایک لمبا، دبلا پتلا بوڑھا آدمی باہر نکلا۔ اس نے پرانا وردی نما کوٹ پہنا ہوا تھا، اور ہاتھ میں ایک زنگ آلود ٹکٹ پنچر تھا۔ اس کی آنکھیں گہرے سائے میں چھپی ہوئی تھیں۔
بوڑھا آہستہ سے بولا:
“ٹکٹ… یا سفر ہمیشہ کے لیے۔”
علی نے ہنستے ہوئے کہا، “میرے پاس ٹکٹ نہیں ہے، یہ کوئی شوٹ ہے کیا؟”
بوڑھے نے ہلکی سی مسکراہٹ دی، لیکن اس کی مسکراہٹ میں سرد پن تھا۔
“یہ شوٹ نہیں، انتخاب ہے… اور تم نے انتخاب کر لیا ہے۔”
علی کے پیروں کے نیچے اچانک جھٹکا لگا، جیسے پلیٹ فارم حرکت کرنے لگا ہو۔ اس نے نیچے دیکھا — پٹریاں دھند میں غائب ہو رہی تھیں۔ ٹرین کا دروازہ خود بخود بند ہو گیا، اور وہ خود کو اندر پایا۔
کھڑکی سے باہر، پلیٹ فارم کی روشنی تیزی سے مدھم ہو رہی تھی۔ اندر مسافر بیٹھے تھے — لیکن سب کے چہرے دھند سے ڈھکے ہوئے، اور آنکھوں کی جگہ سیاہ خلا۔ ان میں سے ایک نے آہستہ سے علی کی طرف دیکھا، اور اس کی اپنی ہی شکل کا چہرہ ظاہر ہوا… لیکن آنکھیں نہیں تھیں۔
علی نے چیخنے کی کوشش کی، لیکن آواز گلے میں دب گئی۔ ٹرین دھند میں غائب ہو گئی، اور پلیٹ فارم نمبر 7 پھر خاموش کھڑا تھا۔
اگلی صبح، ایک صفائی کرنے والے مزدور نے پٹری پر ایک کیمرہ پایا۔ اس کا آخری فوٹو دیکھ کر وہ کانپ گیا — تصویر میں علی کھڑکی کے پیچھے بیٹھا تھا، ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ… اور آنکھوں کی جگہ صرف اندھیرا تھا۔