عنوان: سناٹے کا سفر

رات کے ایک بج کر پچپن منٹ تھے۔
شہر کی سنسان سڑکوں پر صرف بارش کی ہلکی ٹپ ٹپ اور دور کہیں گاڑی کی دھندلی روشنی سنائی دے رہی تھی۔
حسن، ایک نوجوان ویڈیو بلاگر، اپنی اگلی story کے لیے abandoned اور secluded areas میں ویڈیو شوٹ کر رہا تھا۔
وہ ایک پرانی اور سنسان گلی میں داخل ہوا، جہاں کبھی شور ہوتا تھا، لیکن اب صرف خاموشی اور بوسیدہ دیواریں باقی تھیں۔

ہر قدم کے ساتھ فرش سے ہلکی سرسراہٹ سنائی دے رہی تھی، اور حسن نے محسوس کیا کہ گلی میں کوئی سایہ اس کے پیچھے ہے۔
گلی کے کنارے ایک خالی اور پرانا مکان نظر آیا، جس کی کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی تھیں، اور اندر سے مدھم روشنی جھلک رہی تھی۔
حسن نے ہمت کرکے مکان میں قدم رکھا۔

اندر کمرہ خالی تھا، لیکن فرش پر چھوٹے چھوٹے قدموں کے نشان اور بکھرے ہوئے کاغذات پڑے تھے۔
ایک کاغذ پر خون کے دھبوں سے لکھا تھا:

“جو ایک بار اس گلی میں آتا ہے، وہ کبھی واپس نہیں جاتا…”

حسن نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی، مگر وہ زور سے بند ہو گیا۔
سایے اس کے ارد گرد جمع ہو گئے، اور ایک مدھم، لرزتی ہوئی آواز نے کہا:

“اب تم بھی ہمارے درمیان ہو…”

کمرے کے کونے میں ایک پرانا آئینہ پڑا تھا، اور حسن نے دیکھا کہ اس میں اس کا عکس بدل کر سرخ روشن ہو گیا تھا۔
سایے اس کے ارد گرد بڑھتے گئے، اور ایک آخری سرگوشی گونجی:

“سناٹے کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا…”

حسن نے دوڑ لگائی اور دروازہ کھولا،
لیکن جب اس نے مڑ کر دیکھا، تو گلی اور مکان دونوں غائب تھے۔
صرف اندھیرا، بارش اور خاموش سایے باقی تھے، اور حسن جان گیا کہ وہ اب ہمیشہ کے لیے اس سناٹے کے سفر کا حصہ بن چکا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *