رات کے قریب ایک بج کر پچاس منٹ تھے۔
شہر کی ایک سنسان اور تنگ گلی میں صرف بارش کی ٹپ ٹپ اور دور کہیں کتے کی بھونک سنائی دے رہی تھی۔
علی، ایک نوجوان فوٹوگرافر، پرانی اور abandoned گلی کی تصاویر لینے کے لیے وہاں آیا تھا۔
جب وہ گلی کے آخر میں پہنچا، تو محسوس ہوا کہ ہوا کے ساتھ کچھ عجیب سا سرسراہٹ بھی چل رہی ہے، جیسے کوئی اسے قریب سے دیکھ رہا ہو۔
ہر قدم کے ساتھ فرش سے چرچراہٹ گونج رہی تھی، اور گلی کے کنارے مدھم سایے حرکت کر رہے تھے۔
علی نے کیمرہ نکالا اور آگے بڑھا، مگر اچانک محسوس کیا کہ گلی میں کوئی نہیں، لیکن ہوا میں چھوٹے چھوٹے قدموں کی آوازیں گونج رہی ہیں۔
اچانک ایک مدھم آواز آئی:
“تم یہاں کیوں آئے ہو؟”
علی نے پیچھے مڑ کر دیکھا، مگر کوئی نظر نہیں آیا۔
تبھی گلی کے کنارے ایک سنسان گھر کی کھڑکی سے مدھم روشنی آئی، اور اندر سے چھوٹے چھوٹے سایے حرکت کر رہے تھے۔
علی نے ہمت کرکے گھر میں قدم رکھا۔
اندر کمرہ خالی تھا، لیکن فرش پر چھوٹے چھوٹے خون کے نشان اور بکھرے ہوئے کاغذات تھے۔
ایک کاغذ پر لکھا تھا:
“جو اس گلی میں آتا ہے، وہ کبھی واپس نہیں جاتا…”
علی نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی، مگر وہ زور سے بند ہو گیا۔
سایے اس کے ارد گرد جمع ہو گئے، اور ایک مدھم، لرزتی ہوئی آواز نے کہا:
“اب تم بھی ہمارے درمیان ہو…”
علی نے دوڑ لگا کر دروازہ کھولا اور باہر نکلا،
لیکن جب اس نے مڑ کر دیکھا، تو گلی خالی، سنسان، اور مکمل طور پر مختلف نظر آ رہی تھی۔
صرف بارش کی آواز اور دور سے خاموش سایے موجود تھے، اور علی جان گیا کہ اب وہ ہمیشہ کے لیے اس گلی کا حصہ بن چکا ہے۔