عنوان: “چھٹی سیڑھی کا راز”


شہر کے پرانے حصے میں ایک لائبریری تھی جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہاں رات کو قدموں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، حالانکہ کوئی موجود نہیں ہوتا۔ احمد، جو پیشے سے ایک رپورٹر تھا، ان کہانیوں کو سن کر ہمیشہ ہنستا تھا۔ لیکن جب اس کے ایڈیٹر نے اسے حکم دیا کہ اس پراسرار لائبریری کی حقیقت پتا کرے، تو وہ چیلنج لینے سے پیچھے نہ ہٹا۔

اس رات بارش ہلکی ہلکی ہو رہی تھی۔ لائبریری کے باہر پرانی پتھریلی سیڑھیاں بارش کے پانی سے چمک رہی تھیں۔ احمد نے دروازہ دھکیلا تو لکڑی کی پرانی خوشبو اور کاغذ کی باسی مہک نے اس کا استقبال کیا۔ کاؤنٹر خالی تھا، روشنی کمزور، اور ہر طرف خاموشی… بس دور کہیں ایک گھڑی ٹک ٹک کر رہی تھی۔

احمد نے نوٹس کیا کہ مین ہال میں جانے کے لیے ایک لمبی لکڑی کی سیڑھی ہے۔ اس نے قدم رکھا — پہلی، دوسری، تیسری… سب معمولی لگیں، مگر جب وہ چھٹی سیڑھی پر پہنچا تو اس کے نیچے سے کھوکھلی آواز آئی، جیسے وہاں خلا ہو۔ تجسس بڑھا، اس نے جیب سے torch نکالی اور سیڑھی کے نیچے جھانکا — دھندلا سا کاغذ اور کوئی پرانا بکسہ نظر آیا۔

بکسے کو نکالنے کی کوشش میں اچانک سیڑھی زور سے چرچرا اٹھی، جیسے کسی نے اوپر سے پاؤں مارا ہو۔ احمد نے سر اوپر اٹھایا — لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ پھر بھی اسے لگا جیسے کوئی سانس اس کے قریب محسوس ہو رہا ہو۔

اس نے ہمت کر کے بکسہ نکالا۔ اس پر دھول جمی تھی، اور ایک زنگ آلود تالہ لگا تھا۔ جیب میں رکھا چھوٹا چاقو نکالا اور تالہ توڑ دیا۔ اندر پرانے اخبار، ایک سیاہ ڈائری، اور ایک تصویر تھی۔ تصویر میں ایک لڑکی لائبریری کی انہی سیڑھیوں پر کھڑی تھی — لیکن اس کی آنکھیں سیدھی احمد کو گھور رہی تھیں، جیسے وہ جانتی ہو کہ وہ یہ تصویر دیکھ رہا ہے۔

ڈائری کھولتے ہی پہلا صفحہ پڑھا:

“اگر تم نے یہ ڈائری چھٹی سیڑھی سے نکالی ہے… تو یاد رکھو، اب تم بھی اس کا حصہ ہو۔”

احمد کے ہاتھ کانپ گئے۔ اچانک لائبریری کے دروازے زور سے بند ہوئے، اور روشنی بجھ گئی۔ اندھیرے میں وہی لڑکی کی مدھم ہنسی سنائی دی۔ سیڑھی کی سمت سے قدموں کی چاپ قریب آ رہی تھی — ایک، دو، تین، چار، پانچ… اور پھر چھٹی سیڑھی پر ٹھہر گئی۔

احمد نے موبائل کی flashlight آن کی، لیکن وہاں کچھ نہ تھا… صرف وہی تصویر — اب اس میں احمد بھی کھڑا تھا، بالکل چھٹی سیڑھی کے اوپر۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *