بارش کی بوندیں چھت پر ایسے بج رہی تھیں جیسے کوئی چھوٹے چھوٹے پتھر پھینک رہا ہو۔ سردی میں نمی کا احساس بڑھ رہا تھا، اور پورا محلہ گہری خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا۔ عائشہ کچن میں کھڑی چائے کا پانی اُبال رہی تھی۔ چائے کی بھاپ اس کے چہرے پر آ رہی تھی، اور باہر بارش کی ٹپ ٹپ اس ماحول کو مزید اداس بنا رہی تھی۔
گھڑی میں رات کے بارہ بجنے والے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب عام طور پر سب دروازے بند کر کے سونے کی تیاری میں ہوتے ہیں۔
اچانک — ڈنگ ڈونگ!
دروازے کی کال بیل بجی۔
عائشہ چونک گئی۔ اس نے چائے کا چمچ رکھتے ہوئے سر اٹھایا۔ دل کی دھڑکن یک دم تیز ہو گئی۔ اس وقت کون آ سکتا تھا؟ اس نے کان لگا کر دوبارہ سننے کی کوشش کی۔
ڈنگ ڈونگ… ڈنگ ڈونگ!
بیل اس بار کچھ اور لمبی بجی۔
اس نے آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے کھڑکی کا پردہ ہلکا سا ہٹایا۔ باہر ہلکی سی اسٹریٹ لائٹ میں ایک بوڑھی عورت نظر آ رہی تھی۔ سفید بال، جھریوں بھرا چہرہ، اور ہاتھ میں ایک چھوٹا سا کپڑے کا تھیلا۔ بارش میں بھیگنے کے باوجود وہ سیدھی کھڑی تھی، اور آنکھیں عجیب سی خالی نظر آ رہی تھیں۔
عائشہ نے ہچکچاتے ہوئے دروازہ کھولا۔
“جی… آپ کون؟”
عورت نے دھیمی، بھاری آواز میں کہا:
“بیٹی… ذرا پانی مل جائے گا؟”
اس کی آواز میں تھکن تھی، لیکن الفاظ ایسے لگ رہے تھے جیسے کوئی ہر حرف سوچ کر ادا کر رہا ہو۔ عائشہ نے اسے اندر بلایا۔ وہ آ کر کرسی پر بیٹھ گئی۔ بارش کی بوندیں اس کے شال سے فرش پر گر رہی تھیں۔
عائشہ نے کچن میں جا کر ایک گلاس پانی بھرا۔ جب واپس آئی… تو کرسی خالی تھی۔
وہ چونک گئی۔ “امی…؟” اس نے کمرے میں آواز دی، مگر کوئی جواب نہیں آیا۔ پورا لاؤنج سنسان تھا۔
اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ وہ گھر کے ہر کمرے میں گئی، حتیٰ کہ اسٹور روم تک دیکھ لیا — مگر وہ عورت کہیں نہیں تھی۔
اس لمحے اسے یاد آیا… دروازہ تو اس نے اندر سے بند کیا تھا۔ وہ باہر کیسے جا سکتی تھی؟
چونک کر وہ واپس لاؤنج میں آئی تو نظر سنک کی طرف گئی۔ وہاں فرش پر وہی چھوٹا کپڑے کا تھیلا رکھا تھا جو اس عورت کے ہاتھ میں تھا۔
کانپتے ہاتھوں سے اس نے تھیلا کھولا۔ اندر ایک گیلا کپڑا تھا… اور ایک پرانی سی تصویر۔
تصویر میں ایک کم عمر عائشہ اپنی ماں کے ساتھ کھڑی تھی۔ لیکن پس منظر میں… ایک دروازے کے قریب… وہی بوڑھی عورت موجود تھی، مسکراتی ہوئی۔
تصویر کے نیچے مدھم حروف میں لکھا تھا:
“میں وعدہ نبھانے آئی تھی… آخری بار۔”
عائشہ کا دل جیسے رک گیا۔
اسی لمحے — ڈنگ ڈونگ!
کال بیل ایک بار پھر بجی… اس بار اتنی زور سے کہ پورا گھر گونج اُٹھا