زین، ایک تھکا ہارا شہر کا رہائشی، برسوں سے شور، ہارن اور لوگوں کے ہجوم سے اکتا چکا تھا۔ اس نے سوچا کہ کچھ دن گاؤں میں سکون سے گزارے۔ ایک دوست کے ذریعے اسے ایک پرانی حویلی کا کمرہ مل گیا، جو گاؤں کے بالکل کنارے ایک سنسان سڑک پر واقع تھی۔ چاروں طرف اونچے پیپل اور نیم کے درخت، اور دور تک کھیتوں میں جھینگر کی آوازیں گونجتی رہتی تھیں۔
جب زین وہاں پہنچا تو شام کا وقت تھا۔ آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے، ہوا میں مٹی اور پرانی لکڑی کی ملی جلی خوشبو تھی۔ حویلی کے مالک، ایک دبلا پتلا، سفید داڑھی والا شخص، لکڑی کا دروازہ کھول کر بولا:
“بیٹا، یہ چابی رکھ لو۔ بس ایک بات یاد رکھنا… رات کو کھڑکی مت کھولنا۔”
زین نے ہنستے ہوئے پوچھا: “ایسی کیا بات ہے کھڑکی میں؟”
بوڑھے نے نظریں جھکاتے ہوئے آہستہ کہا:
“بس مت کھولنا… اس سے آگے جاننا تمہارے لیے اچھا نہیں۔”
زین نے بات مذاق میں اڑا دی اور کمرے میں جا کر سامان رکھ دیا۔ کمرہ سادہ تھا — لکڑی کا بستر، ایک میز، اور دیوار کے بیچوں بیچ وہی کھڑکی جس کا ذکر مالک نے کیا تھا۔ کھڑکی کے باہر ایک بڑا سا نیم کا درخت تھا، جس کی شاخیں بارش کی ہلکی ہوا سے ہل رہی تھیں۔
پہلی رات، بارش شروع ہو گئی۔ بوندوں کی آواز چھت پر مسلسل ٹپک رہی تھی۔ زین بستر پر لیٹا کتاب پڑھ رہا تھا، کہ اچانک… ٹک… ٹک… کی ہلکی سی دستک سنائی دی۔
وہ چونکا۔ آواز بالکل کھڑکی کی طرف سے آ رہی تھی۔
پہلے تو اس نے نظر انداز کیا، لیکن چند لمحے بعد پھر… ٹک… ٹک… ٹک…
اس بار ذرا زور سے۔ زین اٹھ کر کھڑکی کے قریب گیا۔ باہر بارش میں دھند سی پھیلی ہوئی تھی، اور نیم کے درخت کی شاخیں بھیگ کر نیچے جھک گئی تھیں۔ اس نے سوچا کہ شاید شاخ ہی شیشے سے ٹکرا رہی ہے، اور واپس مڑ گیا۔
لیکن جیسے ہی وہ پلٹا، دستک تیسری بار آئی — اس بار اتنی قریب اور صاف جیسے کوئی انگلی شیشے پر گھما رہا ہو۔
زین نے دل پر قابو پا کر آہستہ سے شیشہ صاف کیا۔ اور تب… دھند کے پیچھے ایک دھندلا سا چہرہ ابھرا۔ آنکھیں سرخ، ہونٹ ہلکی مسکراہٹ میں جمی ہوئی۔
زین کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ پیچھے ہٹا لیکن وہ چہرہ وہیں جما رہا، جیسے حرکت نہ کر رہا ہو… صرف گھور رہا ہو۔
بارش کی ہوا تیز ہوئی اور کھڑکی کے پٹ آہستہ آہستہ خود بخود کھلنے لگے۔ ٹھنڈی ہوا کمرے میں گھس آئی، بتی ہلکی ہلکی ٹمٹمانے لگی۔ زین نے گھبرا کر کھڑکی بند کرنے کی کوشش کی، لیکن جیسے ہی ہاتھ بڑھایا… پیچھے سے ایک سرد، بھاری آواز گونجی:
“تم نے میری طرف دیکھا ہے… اب تم واپس نہیں جا سکتے۔”
زین نے پلٹ کر دیکھا — کمرے میں کوئی نہیں تھا۔ لیکن اگلے ہی لمحے، اس کا کندھا کسی نے زور سے پکڑا۔ اس کی چیخ بارش میں دب گئی۔
اگلی صبح، گاؤں کے لوگ حویلی پہنچے تو کمرہ خالی تھا۔ کھڑکی پوری طرح کھلی ہوئی تھی۔ فرش پر پانی اور مٹی کے گیلے قدموں کے نشان تھے — جو بستر کے پاس سے چلتے ہوئے سیدھے دیوار میں جا کر غائب ہو گئے تھے۔