احمد کو اپنے دادا کا پرانا گھر وراثت میں ملا۔ گاؤں کے کونے پر واقع یہ گھر کئی سال سے بند تھا۔ جب وہ پہلی بار وہاں پہنچا تو گلی میں سنّاٹا تھا، بس دور سے کبھی کبھار کسی کتے کے بھونکنے کی آواز آتی۔ لکڑی کا گیٹ چرچراتا ہوا کھلا، اور ایک باسی سی بدبو اس کے استقبال کے لیے نکل آئی۔
اندر داخل ہوتے ہی ہر طرف دھول، مکڑ جالے، بوسیدہ فرنیچر اور ٹوٹے ہوئے شیشے کا منظر تھا۔ لکڑی کے فرش پر چلتے ہی چرچراہٹ گونجتی تھی۔
صفائی کرتے کرتے اس کی نظر کونے میں رکھی ایک پرانی الماری پر پڑی۔ تالہ زنگ آلود تھا، لیکن ہلکے سے دھکے پر ٹوٹ گیا۔ اندر پرانے کپڑوں کے نیچے ایک بوسیدہ ڈائری رکھی تھی۔ جلد پھٹی ہوئی، کونے مڑے ہوئے، اور صفحات پیلے پڑ چکے تھے۔
پہلا صفحہ کھولا تو اوپر تاریخ لکھی تھی — “12 مارچ 1975” — اور نیچے عجیب سا نوٹ:
“اگر یہ ڈائری کسی کو ملے، تو براہِ کرم اسے پڑھ کر یہاں سے فوراً نکل جائے۔”
احمد کے دل میں تجسس کی لہر دوڑ گئی۔ وہ کمرے کے ایک کونے میں بیٹھ گیا اور پڑھنا شروع کیا۔
ڈائری ایک عورت کے ہاتھ کی لکھائی میں تھی۔ وہ لکھ رہی تھی کہ اس گھر میں رات کو کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی ہے، دروازے خود بخود کھل جاتے ہیں، اور آئینے میں ایسے چہرے نظر آتے ہیں جو حقیقت میں موجود نہیں۔
پھر ایک تاریخ کے بعد لکھا تھا:
“کل رات میں نے اوپر والے کمرے سے کسی کے چلنے کی آواز سنی۔ جب دروازہ کھولا، تو کونے میں ایک سایہ کھڑا تھا… آہستہ آہستہ میری طرف بڑھ رہا تھا۔ میں بھاگنا چاہتی تھی مگر میرے قدم جیسے زمین میں جَم گئے تھے۔”
یہاں صفحہ ختم ہو گیا۔ اگلا صفحہ خالی تھا۔
احمد نے گہری سانس لی۔ اوپر کا کمرہ؟ اس نے سوچا شاید یہ سب وہم ہو، لیکن تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ آہستہ آہستہ زینے چڑھنے لگا۔ ہر قدم کے ساتھ لکڑی کی سیڑھیاں خوفناک آواز نکال رہی تھیں۔
دروازہ آہستہ سے دھکا دے کر کھولا، تو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا۔ کمرہ سنّاٹے میں ڈوبا تھا، لیکن درمیان میں رکھی پرانی جھولتی ہوئی کرسی ہل رہی تھی، حالانکہ کھڑکی بند تھی۔
کمرے کے کونے میں ایک بڑا سا آئینہ رکھا تھا، جس پر موٹی دھول جمی ہوئی تھی۔ احمد نے ہاتھ سے دھول صاف کی… اور جیسے ہی شیشہ صاف ہوا، اس کا دل رک سا گیا۔
آئینے میں وہ خود نہیں تھا — بلکہ ایک سفید کپڑوں میں عورت کھڑی تھی، زرد چہرہ، آنکھوں میں خالی پن، اور ہاتھ میں وہی ڈائری۔
اس نے ہونٹ ہلائے، اور مدھم سی سرگوشی کمرے میں گونجی:
“تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا…”
اچانک آئینہ ٹوٹ گیا۔ احمد کے قدم پیچھے ہٹے، اور اس کے کان کے قریب کسی نے سانس لی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا — کمرہ خالی تھا۔
جب وہ سنبھل کر نیچے آیا، ڈائری اس کے ہاتھ میں نہیں تھی۔ الماری میں جا کر دیکھا، تو وہ بھی غائب تھی — جیسے کبھی موجود ہی نہ ہو۔