عنوان: پُرانا قفل (The Old Lock)


رات کے ساڑھے گیارہ بجے کا وقت تھا۔ کراچی کی پرانی لیاقت مارکیٹ میں آخری دکانیں بند ہو رہی تھیں۔ سڑک سنسان تھی، بس کبھی کبھار کوئی آوارہ کتا بھونکتا یا کسی پرانے سائن بورڈ کا کڑکڑانا سنائی دیتا۔

عامر، ایک پرانا اینٹیـک کلیکٹر، مارکیٹ کے ایک کونے میں موجود چھوٹے سے اسٹور کے سامنے کھڑا تھا۔ اسٹور کے شیشے پر مٹی جمی ہوئی تھی، اور اندر اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ اس کے دوست بلال نے بتایا تھا:

“یہاں ایک تالا بکتا ہے… جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جس کے پاس بھی ہو، اس کی سب سے بڑی خواہش پوری کرتا ہے۔ لیکن… قیمت ہمیشہ پیسوں میں نہیں لی جاتی۔”

عامر کو ایسی باتوں پر ہنسی آتی تھی، لیکن اس کا شوق اور لالچ ہمیشہ اسے ایسے ہی پراسرار جگہوں تک لے آتا۔ اس نے دروازہ کھولا — ایک پرانی گھنٹی نے ہلکی سی ٹن ٹن کی، جیسے برسوں سے کسی نے اسے نہ چھوا ہو۔

اندر ایک بوڑھا دکاندار بیٹھا تھا، لمبی سفید داڑھی، اور آنکھوں میں عجیب سی چمک۔ لکڑی کے شیلف پر دھول سے ڈھکی ہوئی اشیاء پڑی تھیں — پرانے دیے، سونے کے سکے، اور بیچ میں ایک سیاہ لوہے کا قفل۔ اس قفل پر باریک سنہری نقوش بنے تھے، جو مدھم روشنی میں بھی چمک رہے تھے۔

بوڑھے نے قفل کو میز پر رکھا اور دھیرے سے کہا:

“یہ چاہو تو تمہاری زندگی بدل سکتا ہے… لیکن اسے کھولنا تمہارے اختیار میں نہیں ہوگا۔ یہ خود فیصلہ کرے گا کہ کب اور کیسے کھلے۔”

عامر نے مسکرا کر پیسے میز پر رکھے۔ دکاندار نے صرف ایک جملہ کہا:

“جب یہ کھلے، پیچھے مڑ کر مت دیکھنا۔”

رات کو گھر پہنچتے ہی عامر نے قفل کو ٹیبل پر رکھا۔ وہ اسے دیکھتا رہا، جیسے وہ قفل بھی اسے دیکھ رہا ہو۔ آدھی رات کے قریب، عامر نے اپنے کمرے میں ہلکی سی “چٹک” کی آواز سنی۔ قفل خود بخود کھل چکا تھا۔

کمرہ ٹھنڈا ہو گیا، جیسے کسی نے کھڑکی کھول دی ہو — لیکن کھڑکیاں بند تھیں۔ قفل کے اندر ایک چھوٹی سی پرچی تھی، جس پر اس کے ہاتھ کی لکھائی میں لکھا تھا:

“تمہاری سب سے بڑی خواہش ابھی پوری ہوگی۔”

اچانک دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ عامر نے کان لگا کر سنا، پھر دوبارہ دستک… اور پھر ایک آواز:

“ہمیں پتا ہے تم کیا چاہتے ہو… دروازہ کھولو۔”

اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ اس نے ہمت کر کے دروازہ کھولا — اور سامنے ایک لمبا سایہ کھڑا تھا، چہرہ دھند میں چھپا ہوا۔ اس سائے نے دھیرے سے کہا:

“چلو… تمہاری خواہش تمہارا انتظار کر رہی ہے۔”

عامر نے ایک لمحے کو ہچکچایا، پھر قدم آگے بڑھایا۔ لیکن جیسے ہی وہ باہر نکلا، اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا — اور سب کچھ بدل گیا۔

وہ اب اپنے کمرے میں نہیں تھا۔ وہ ایک سنسان گلی میں کھڑا تھا، چاروں طرف پرانے، خالی مکان۔ قفل اس کے ہاتھ میں تھا، لیکن اب وہ بند ہو چکا تھا۔ اور دور ایک بوسیدہ دیوار پر خون سے لکھا تھا:

“قیمت ادا ہو چکی ہے۔”

اگلی صبح، بلال نے عامر کا گھر دیکھا — دروازہ کھلا ہوا تھا، کمرے میں سب کچھ ویسا ہی تھا… بس ٹیبل پر ایک سیاہ قفل پڑا تھا، جو دھیرے دھیرے ٹھنڈی دھند چھوڑ رہا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *