رات کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔ شہر کی پرانی ریل گاڑی، جو اب صرف ہفتے میں ایک بار چلتی تھی، آہستہ آہستہ پلیٹ فارم نمبر 7 پر آ کر رکی۔ پلیٹ فارم سنسان تھا، صرف چند بکھری ہوئی بلیاں، دور کی مدھم سیٹی، اور اسٹیشن کے بوسیدہ لائٹس کا ہلکا ہلکا جھپکنا۔

علی کا ارادہ تھا کہ وہ اس گاڑی کے آخری ڈبے میں بیٹھے۔ اس نے سنا تھا کہ یہ ڈبہ ہمیشہ خالی ہوتا ہے۔ لیکن کیوں — کوئی نہیں بتاتا۔
وہ ہنستے ہوئے خود سے بولا: “کچھ نہیں… بس لوگ کہانیاں گھڑتے ہیں۔”

وہ آخری ڈبے میں داخل ہوا۔ اندر واقعی مکمل خاموشی تھی۔ لکڑی کی پرانی بینچوں پر دھول جمی ہوئی، کھڑکیوں پر بارش کے دھبے، اور کونے میں ایک پرانا ساٹین کا پردہ ہلکی ہوا سے لرز رہا تھا۔

گاڑی چل پڑی۔ علی نے اپنی سیٹ سنبھالی۔ چند منٹ گزرے تھے کہ اس نے دیکھا — پردے کے پیچھے جیسے کوئی کھڑا ہے۔
“ہیلو؟” اس نے آواز دی۔ کوئی جواب نہیں۔

پردہ ہلکا سا ہٹا… اور وہاں صرف ایک پرانا آئینہ تھا۔ عجیب بات یہ تھی کہ آئینے میں علی کا عکس نہیں آ رہا تھا۔
اس کی سانس رک گئی۔ اس نے ہاتھ ہلایا — مگر خالی آئینہ، جیسے سامنے کچھ ہی نہ ہو۔

اچانک ڈبے کا دروازہ بند ہوا اور لائٹس مدھم ہو گئیں۔ کھڑکی کے شیشے پر دھند جم گئی، اور اس پر کسی نے انگلی سے لکھا:

“یہ سفر واپس نہیں جاتا۔”

گاڑی کی رفتار بڑھتی گئی۔ کھڑکی کے باہر سے گزرتا منظر اب کوئی پہچانی جگہ نہیں لگ رہی تھی — نہ درخت، نہ سڑکیں، بس سیاہ دھند اور دور دور روشنی کے دھبے۔

پھر ایک مسافر نمودار ہوا — سفید سوٹ میں، لیکن چہرہ دھندلا، جیسے پانی میں عکس۔ وہ علی کے سامنے آ کر بیٹھ گیا۔
“پہلی بار ہو یہاں؟” اس نے آہستہ سے پوچھا۔

علی نے گلے کو تر کرتے ہوئے کہا: “ہاں… لیکن یہ گاڑی کہاں جا رہی ہے؟”
وہ مسافر ہلکا سا مسکرایا:

“جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔”

گاڑی ایک جھٹکے سے رک گئی۔ دروازہ کھلا۔ باہر گہرا جنگل اور سرخ آسمان۔
مسافر کھڑا ہوا، اور علی کے کان میں سرگوشی کی: “اب تم بھی ہمارے ساتھ ہو۔”

علی نے پیچھے دیکھا — ڈبے میں اب کئی لوگ بیٹھے تھے، سب کے چہرے دھندلے، سب کی آنکھیں خالی۔

گاڑی پھر چل پڑی۔ اور اسٹیشن کا بورڈ، جو دھند میں مدھم نظر آ رہا تھا، صرف ایک لفظ دکھا رہا تھا —
“آخری اسٹاپ”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *