رات کے گیارہ بجے، سارا شہر جیسے سو چکا تھا۔ لیکن حامد کے فون پر ایک میسج آیا:
“اگر سچ جاننا ہے تو پرانے سول اسپتال کی لفٹ نمبر 3 میں آؤ۔”
یہ اسپتال دس سال پہلے بند کر دیا گیا تھا، کہا جاتا تھا کہ یہاں کے آخری فلوڑ پر ہونے والے ایک حادثے کے بعد کوئی دوبارہ اوپر نہیں گیا۔ حامد، جو ایک فری لانس فوٹوگرافر تھا، ہمیشہ ایسے abandoned مقامات کی تصویریں بناتا۔
اس نے کیمرہ اور ٹارچ سنبھالی اور اسپتال کے گیٹ سے اندر داخل ہوا۔ ہوا میں پرانی دوائیوں کی باسی بو، دیواروں پر اترتا ہوا پینٹ، اور راہداریوں میں گونجتی اپنی ہی قدموں کی آواز — یہ سب مل کر ایک عجیب بے چینی پیدا کر رہے تھے۔
لفٹ نمبر 3 بالکل کونے میں تھی۔ دھندلا سا بٹن، جس پر ابھی بھی “UP” لکھا ہوا تھا۔ حیرت انگیز طور پر لفٹ آن تھی۔ حامد نے بٹن دبایا۔ دروازہ آہستہ سے کھلا اور اندر مدھم پیلا بلب جل رہا تھا۔
وہ اندر گیا اور بٹن پینل پر دیکھا — صرف “B” یعنی بیسمنٹ کا بٹن جل رہا تھا۔
“یہ لفٹ اوپر نہیں جاتی؟” اس نے خود سے کہا۔
پھر سوچا، “چلو بیسمنٹ ہی دیکھ لیتے ہیں۔”
لفٹ آہستہ آہستہ نیچے جانے لگی۔ مگر جیسے جیسے نیچے جا رہی تھی، فلور نمبر نیچے کی بجائے اوپر بڑھنے لگے — 1… 2… 3… 4… حتیٰ کہ 13 پر پہنچ گئی۔
حامد گھبرا گیا: “یہ اوپر جا رہی ہے؟ لیکن 13واں فلور تو اس اسپتال میں ہے ہی نہیں!”
دروازہ کھلا۔ سامنے ایک بالکل نیا کوریڈور، چمکتی سفید لائٹس، اور لوگ — ڈاکٹرز، نرسز، مریض — لیکن سب خاموش، سب کے چہرے خالی، آنکھوں میں کوئی چمک نہیں۔
ایک نرس حامد کے پاس آئی، مسکرائی اور بولی:
“ہم آپ کا انتظار کر رہے تھے، ڈاکٹر حامد۔”
“ڈاکٹر؟ میں فوٹوگرافر ہوں!”
اس نے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی، لیکن لفٹ کا دروازہ بند ہو چکا تھا۔
نرس نے ہاتھ پکڑا اور کہا: “حادثے والے دن آپ بھی ہمارے ساتھ تھے، بس یاد نہیں…”
اس کے الفاظ کے ساتھ ہی حامد کے دماغ میں ایک دھماکے کا منظر آیا — دھواں، چیخیں، اور وہ خود، اسی فلور پر۔
لوگ آہستہ آہستہ اس کے قریب آنے لگے۔ ان کے قدموں کی آواز ایک ساتھ گونجنے لگی — ٹھک… ٹھک… ٹھک…
حامد پلٹا، لفٹ کے بٹن دبائے — سب غائب تھے، صرف ایک نیا بٹن نظر آ رہا تھا: “FOREVER”۔
اس نے آخری بار لفٹ سے باہر دیکھا — نرس کے چہرے پر اب مسکراہٹ نہیں تھی، صرف سیاہ خالی آنکھیں۔
دروازہ بند ہوا، اور لفٹ نیچے نہیں، بلکہ ایک اندھیری خلا میں گرنے لگی۔
اندھیرے میں بس ایک مدھم سرگوشی سنائی دی:
“اب تم کبھی نہیں جاؤ گے…”