عنوان: آخری بس کا سفر

رات کے بارہ بج کر دس منٹ ہو چکے تھے۔ سڑک سنسان تھی، اور حامد اکیلا بس اسٹاپ پر کھڑا آخری بس کا انتظار کر رہا تھا۔
ہوا میں ہلکی سی نمی اور مٹی کی خوشبو تھی، جیسے ابھی بارش ہونے والی ہو۔
اس کے پیچھے ایک پرانا بورڈ جھول رہا تھا، جس پر لکھا تھا: “بس نمبر 47 — صرف ایک آخری اسٹاپ”۔

یہ بات حامد کو عجیب لگی کیونکہ اس روٹ کی کوئی بس وہ نہیں جانتا تھا۔
اس نے فون نکال کر گوگل کیا، لیکن اس بس کے بارے میں کچھ نہیں ملا۔
اسی لمحے دور سے ایک پرانی سی، دھند میں لپٹی بس آتی دکھائی دی۔ ہیڈلائٹس دھندلی، اور انجن کی گھررر… گھررر… جیسی آواز۔

بس آ کر اس کے سامنے رکی۔ دروازہ آہستہ سے کھلا۔ اندر صرف چند لوگ بیٹھے تھے — سب نے پرانے زمانے کے کپڑے پہنے ہوئے تھے، جیسے 70 کی دہائی کے ہوں۔
ڈرائیور نے بغیر کچھ کہے ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کا کہا۔

حامد اندر آیا تو عجیب سا ٹھنڈا جھونکا لگا، جیسے اندر کا درجہ حرارت باہر سے کئی گنا کم ہو۔
بس چل پڑی۔ کھڑکی سے باہر وہی سڑک نظر آ رہی تھی، مگر کچھ ہی دیر بعد منظر بدلنے لگا۔ اب باہر گھروں کی جگہ ویران کھیت اور ٹوٹی ہوئی عمارتیں دکھائی دینے لگیں۔

سامنے بیٹھی ایک بزرگ عورت نے دھیرے سے کہا:

“بیٹا، اگر زندہ واپس جانا ہے تو اگلے اسٹاپ سے پہلے اتر جانا۔”

حامد نے گھبرا کر پوچھا: “کیوں؟”
وہ بس اتنا بولی: “یہ آخری بس ہے… اور آخری اسٹاپ زندگی میں نہیں۔”

ڈرائیور نے ریئر ویو مرر میں حامد کی طرف دیکھا — آنکھوں میں عجیب سرخی اور ہلکی سی مسکراہٹ۔
بس کی رفتار بڑھنے لگی، اور باہر کے مناظر جیسے تیزی سے وقت میں پیچھے جا رہے ہوں — گھوڑا گاڑیاں، پرانے لیمپ پوسٹ، اور پھر مکمل اندھیرا۔

حامد نے گھبرا کر بیل بجائی۔ ڈرائیور نے زور سے بریک لگائی۔
دروازہ کھلا، لیکن باہر وہی بس اسٹاپ تھا — خالی، سنسان، اور گھڑی میں بارہ بج کر دس منٹ ہی ہو رہے تھے، جیسے وقت رکا ہوا ہو۔

وہ فوراً اتر گیا۔ بس دروازہ بند کر کے چل پڑی، اور دھند میں غائب ہو گئی۔
پیچھے سے بزرگ عورت کی آواز گونجی:

“یاد رکھنا… اگر دوبارہ یہ بس نظر آئے تو سوار مت ہونا…”

حامد نے پلٹ کر دیکھا — بس اسٹاپ کا بورڈ غائب تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *