سردیوں کی ایک کہر آلود شام تھی۔ ہوا میں برف جیسی ٹھنڈک اور گیلے فرش کی مہک گھلی ہوئی تھی۔
آمنہ اپنے کزنز کے ساتھ پرانے خاندانی حویلی میں آئی تھی۔ حویلی کی سب سے اوپر والی منزل پر ایک کمرہ تھا جو ہمیشہ سے بند رہتا تھا۔
بچپن میں سب نے سنا تھا کہ اس کمرے میں کوئی حادثہ ہوا تھا، مگر کوئی تفصیل کبھی نہ ملی۔
رات کو سب اپنے اپنے کمروں میں سو گئے، مگر آمنہ کو نیند نہیں آ رہی تھی۔
وہ ٹہلتے ٹہلتے اوپر گئی، اور حیرت سے دیکھا کہ بند کمرے کا دروازہ آدھا کھلا ہوا تھا۔
اندر سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آ رہے تھے۔
وہ آہستہ آہستہ اندر داخل ہوئی۔ کمرہ دھندلا اور باسی تھا، جیسے سالوں سے بند ہو۔
فرش پر ایک پرانی کرسی رکھی تھی، جس پر گرد جمی ہوئی تھی۔ کونے میں ایک آئینہ پڑا تھا — شیشہ ٹوٹا ہوا، مگر درمیان میں ایک حصہ صاف اور چمکتا ہوا تھا۔
آمنہ نے قریب جا کر آئینے میں جھانکا… اور اچانک پیچھے سے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔
وہ تیزی سے پلٹی، مگر کمرہ خالی تھا۔
پھر آئینے میں کچھ ہلتا ہوا دکھائی دیا — جیسے کسی نے اس کے پیچھے سے جھانکا ہو۔
آمنہ نے آنکھیں جھپکیں، اور اب اس نے دیکھا کہ آئینے میں اس کا عکس مسکرا رہا تھا… لیکن وہ خود مسکرا نہیں رہی تھی۔
اس کا دل کانپنے لگا۔
آئینے والے عکس نے آہستہ سے کہا:
“تم یہاں کیوں آئی ہو…؟”
آمنہ پیچھے ہٹنے لگی، مگر آئینے میں اس کا عکس اب کرسی سے اٹھ کر اس کی طرف آ رہا تھا۔
اس نے مڑ کر دیکھا — کمرہ خالی، مگر آئینے میں وہ عکس بس ایک قدم کے فاصلے پر تھا۔
آمنہ نے دوڑ کر دروازے کی طرف جانا چاہا، مگر دروازہ زور سے بند ہو گیا۔
کمرے کی ٹھنڈک بڑھنے لگی، سانسیں بھاری ہو گئیں، اور آئینے میں عکس نے ہاتھ بڑھا کر شیشے کی سطح کو اندر سے دھکیلنا شروع کر دیا — جیسے وہ آئینے سے باہر نکلنے والا ہو۔
آمنہ نے چیخنے کی کوشش کی مگر آواز نہ نکلی۔
آخری لمحے اس نے محسوس کیا کہ آئینے کی سطح پانی کی طرح ہل رہی ہے، اور اس کا عکس اس کے بازو کو پکڑ کر اندر کھینچ رہا ہے۔
دروازہ صبح نوکر نے کھولا تو کمرہ خالی تھا۔
آئینے میں صرف ایک دھندلا عکس باقی تھا — آمنہ کا… جو اندر سے خاموشی سے باہر دیکھ رہا تھا۔