عنوان: خاموش مہمان

رات کے دو بج کر پچاس منٹ ہو چکے تھے۔
شہری ہاؤسنگ کمپلیکس میں روشنی مدھم تھی، اور ہوا میں ہلکی سی نمی اور مٹی کی خوشبو گھلی ہوئی تھی۔
زینب اپنے نئے کرائے کے فلیٹ میں تنہا تھی، اور باہر کی بارش کی آواز میں وہ کتاب پڑھ رہی تھی۔

اچانک دروازے کی سنک سنائی دی، جیسے کوئی آہستہ سے دستک دے رہا ہو۔
زینب نے سوچا شاید کوئی پڑوسی ہوگا، لیکن فلیٹ کے نیچے سب دروازے بند تھے۔
اس نے ہلکی سی سانس بھری اور دروازہ کھولا — باہر کوئی نہیں تھا۔

پھر اچانک، لاؤنج کے صوفے پر ایک کرسی ہلتی محسوس ہوئی۔
زینب نے پلٹ کر دیکھا — خالی کمرہ، مگر کرسی خود ہی دھیرے دھیرے آگے پیچھے ہو رہی تھی۔
ایک مدھم سرگوشی سنائی دی:

“میں تمہیں دیکھ رہا ہوں…”

زینب کے جسم میں ٹھنڈک دوڑ گئی۔ اس نے فون نکالا، روشنی جلا کر کمرے کے ہر کونے میں جھانکا، مگر کچھ نظر نہیں آیا۔
تبھی صوفے کے نیچے سے ایک پرانا کاغذ جھاگ کی طرح نکل آیا، جس پر خون کے دھبے سے لکھا تھا:

“تم بھی ہمارے درمیان ہو… خاموش رہو۔”

زینب نے ہمت کرکے کرسی کو ہاتھ لگایا — لیکن اس کا وزن غیر معمولی تھا، جیسے اندر کوئی بیٹھا ہو۔
کرسی دھیرے دھیرے حرکت کرنے لگی، اور کمرے کے آئینے میں اس کا عکس بدل گیا — آنکھیں خالی، چہرہ مدھم، جیسے کوئی اور اس میں رہ رہا ہو۔

فون کی گھنٹی بجی، لیکن اس بار اس میں اپنی ہی آواز سنائی دی:

“کسی کو نہ بتانا… یہ فلیٹ کبھی نہیں چھوڑتا۔”

زینب نے کمرے کی طرف دوڑ لگائی، لیکن دروازہ زور سے بند ہو گیا۔
اس نے محسوس کیا کہ وہ اب اس خاموش مہمان کے ساتھ قید ہے، اور آئندہ کوئی اسے آزاد نہیں کر سکتا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *