رات کے گیارہ بج کر بیس منٹ ہو چکے تھے۔
بارش کی ٹھنڈی بوندیں کھڑکی سے ٹکرا رہی تھیں، اور شہر کی سنسان گلیوں میں صرف ہوا کی سرسراہٹ سنائی دے رہی تھی۔
نادیہ، ایک نوجوان محقق اور urban explorer، ایک abandoned مکان میں داخل ہوئی تاکہ وہاں کی پرانی تاریخ اور کہانیاں جان سکے۔
جب وہ دروازے سے گزری، تو اندر کی ہوا میں باسی خوشبو اور نم دیواروں کی بو گھلی ہوئی تھی، جیسے سالوں سے کوئی زندہ موجود نہ رہا ہو۔
ہر قدم کے ساتھ فرش چرچراہٹ کرنے لگا، اور نادیہ نے محسوس کیا کہ کوئی اسے آہستہ آہستہ دیکھ رہا ہے۔
کمرے کے کونے میں ایک پرانی الماری کھڑی تھی، جس کی دروازے خود بخود کھلنے لگے۔
الماری کے اندر سے ایک چھوٹی سی کتاب کھل کر زمین پر جا گری، اور اس کے صفحات ہلکی روشنی میں چمکنے لگے۔
نادیہ نے کتاب اٹھائی، اور جیسے ہی اس نے پڑھنا شروع کیا، ایک مدھم سرگوشی سنائی دی:
“یہاں مت رہو… یہ مکان زندہ ہے…”
وہ پلٹ کر دیکھتی ہے، مگر کمرہ خالی تھا۔
کتاب کے صفحات خود بخود پلٹنے لگے، اور ہر صفحے پر نادیہ کا نام لکھا نظر آیا۔
کمرے کی روشنی مدھم ہو گئی، اور ایک سایہ الماری سے نکل کر اس کے سامنے آ گیا۔
سایہ قریب آیا، اور آواز میں لرزش تھی:
“جو ایک بار اس مکان میں آتا ہے، وہ ہمیشہ کے لیے رہتا ہے…”
نادیہ نے دروازہ زور سے کھولنے کی کوشش کی اور باہر دوڑ نکلی،
لیکن جب وہ مڑ کر دیکھتی ہے، تو مکان مکمل طور پر غائب تھا۔
صرف سنسان گلی، بارش کی آواز اور خاموشی بچی تھی، اور نادیہ جان گئی کہ وہ بھی اب ہمیشہ کے لیے اس خاموش مکان کی قید ہے۔