عنوان: اندھیری گلی کی پرچھائیاں

رات کے گیارہ بج کر پچاس منٹ تھے۔
شہر کی سنسان گلی میں صرف بارش کی ہلکی ٹپ ٹپ اور دور کہیں ہلکی ہوا کی سرسراہٹ سنائی دے رہی تھی۔
فائزہ، ایک نوجوان investigative reporter، اپنی اگلی story کے لیے abandoned علاقوں کی تحقیق کر رہی تھی۔
وہ ایک تنگ اور خالی گلی میں پہنچی، جہاں کبھی لوگوں کا جمگھٹا ہوتا تھا، لیکن اب صرف خاموشی اور بوسیدہ دیواریں باقی تھیں۔

ہر قدم کے ساتھ فرش سے عجیب سی آوازیں آ رہی تھیں، اور فائزہ نے محسوس کیا کہ گلی میں سایے حرکت کر رہے ہیں، جیسے کوئی اسے قریب سے دیکھ رہا ہو۔
گلی کے کنارے ایک پرانا مکان نظر آیا، جس کی کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی تھیں، اور مدھم روشنی اندر سے جھلک رہی تھی۔
فائزہ نے ہمت کرکے مکان میں قدم رکھا۔

اندر کمرہ خالی تھا، لیکن فرش پر چھوٹے چھوٹے قدموں کے نشان اور بکھری ہوئی کاغذات نظر آئے۔
ایک کاغذ پر خون کے دھبوں سے لکھا تھا:

“جو ایک بار اس گلی میں آتا ہے، وہ کبھی واپس نہیں جاتا…”

فائزہ نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی، مگر وہ زور سے بند ہو گیا۔
سایے اس کے ارد گرد جمع ہو گئے، اور ایک مدھم لرزتی ہوئی آواز نے کہا:

“اب تم بھی ہمارے درمیان ہو…”

فرش پر ایک پرانا آئینہ پڑا تھا، اور فائزہ نے دیکھا کہ اس میں اس کا عکس بدل کر سرخ روشن ہو گیا تھا۔
اس کے ارد گرد سایے بڑھتے گئے، اور ایک آخری سرگوشی گونجی:

“کسی کو مت بتانا… یہ گلی زندہ ہے…”

فائزہ نے دروازہ زور سے کھول کر باہر دوڑ لگائی،
لیکن جب اس نے مڑ کر دیکھا، تو گلی اور مکان دونوں غائب ہو چکے تھے۔
صرف اندھیرا، بارش اور خاموش سایے بچ گئے، اور فائزہ جان گئی کہ وہ اب ہمیشہ کے لیے اس اندھیری گلی کی قید ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *